Saturday, 19 November 2016

شوق راتوں کو ہے درپے کہ تپاں ہو جاؤں

شوق راتوں کو ہے درپے کہ تپاں ہو جاؤں
رقصِ وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
ساتھ اگر بادِ سحر دے تو پسِ محملِ یار
اک بھٹکتی ہوئی آوازِ فغاں ہو جاؤں
اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات
نفسِ سرد سے بھی شعلہ بہ جاں ہو جاؤں
لا صراحی کہ کروں وہم و گماں غرقِ شراب
اس سے پہلے کہ میں خود وہم و گماں ہو جاؤں
وہ تماشا ہو ہزاروں مِرے آئینے میں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں
شوق میں ضبط ہے ملحوظ مگر کیا معلوم
کس گھڑی بے خبرِ سود و زیاں ہو جاؤں
ایسا اندازِ غزل ہو کہ زمانے میں ظفرؔ
دورِ آئندہ کی قدروں کا نشاں ہو جاؤں

سراج الدین ظفر

No comments:

Post a Comment