Saturday 19 November 2016

نہ مرض کچھ ہے نہ آسیب نہ سایا ہم کو

نہ مرض کچھ ہے نہ آسیب، نہ سایا ہم کو
اک پری زاد نے دیوانہ بنایا ہم کو
ہاۓ قدموں سے بھی اک دن نہ لگایا ہم کو
دھیان میں خاک برابربھی نہ لایا ہم کو
دل کی بے تابیوں سے طائرِ بسمل کی طرح
خاک پراس کی جدائی نے لٹایا ہم کو
ہم مریں بھی تو نہ ہو اس کو یقینِ الفت
نیم جاں جس کی محبت نے بنایا ہم کو
ہاۓ اک چاند کے ٹکڑے نے ستارے کی طرح
مدتوں شام سے تا صبح جگایا ہم کو
ہم نہ کہتے تھے کہ اے دل نہ کسی پر جی دے
زندگی روگ ہے اب تجھ کو بتا، یا ہم کو
تیرے تلووں کی چھڑائی ہوئی مہندی کی طرح
خاک میں تیری جدائی نے ملایا ہم کو
رہ گیا مثلِ کتاں پھٹ کے جگر سینے میں
چاند سا چہرہ یکایک جو دکھایا ہم کو
دیکھۓ خاک میں ہم مل گئے مانندِ سرشک
آپ نے کس لیے آنکھوں سے گرایا ہم کو
دردِ فرقت سے بچیں گے تو کہیں گے چل کر
شکر کر شکر، بھلا زندہ ہی پایا ہم کو
جان ہم سمجھے تھے جس کو وہ ہمیں دل سمجھا
ہاۓ کس پیارسے پہلومیں بٹھایا ہم کو
آج تک بات وہ یاد آ کے گلا گھونٹتی ہے
وقت رِخصت جو گلے اس نے لگایا ہم کو
لاغری میں تری صدقے، کہ سمجھ کر تنکا
پھڑکی آنکھ ان کو تو آنکھوں سے لگایا ہم کو
وصل کی رات بھی اس رشکِ چمن نے آسیؔ
صورتِ شبنمِ گل خوب رلایا ہم کو

آسی غازی پوری

No comments:

Post a Comment