Monday 21 November 2016

جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے در و بام

نیا شہر

جب نئے شہر میں جاتا ہوں، وہاں کے در و بام
لوگ وارفتہ، سراسیمہ، دکانیں، بازار
بت نئے راہنماؤں کے، پرانے معبد
حُزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھر، ریل کے پل، بجلی کے کھمبے، تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار

اشتہار ایسی دواؤں کے کہ ہر اِک جا چسپاں
اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار
اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے
یہ نیا شہر نظر آتا ہے، خوابوں کا دیار
شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں
کوئ ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار
کوئ ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا، ساتھی، کوئ دشمنِ جاں، دوست شعار

اختر الایمان

No comments:

Post a Comment