Monday 21 November 2016

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں

بے تعلقی
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں
جو کبھی سنگِ گراں بن کے مِرے سر پہ گِرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مِری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خونِ جگر بن کے مِژہ پر آیا
آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے
جیسے میں کشمکشِ زیست میں شامل ہی نہیں

اختر الایمان

No comments:

Post a Comment