Monday 21 November 2016

درد کی حد سے پرے

درد کی حد سے پرے
درد کی حد سے پرے کوئ نہیں جا سکتا
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
ایک سناٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت
یہ کُرہ، گھومتی پھرتی یہ ستم کوش زمیں
خاک اور آب کا اک گولا ہے بے رونق سا
آؤ چھپ جائیں، چلو موت کے ڈر سے بھاگیں

تم مِری بانہوں میں، میں زلفوں میں چھپ جاؤں یہیں
اور اس درد کا اظہار کریں
زندگی جس سے عبارت ہے تمام
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
گرمئ عشق، یہ بوسوں کی حرارت، یہ سگندھ
جو پسینہ میں ہے
یہ جھرجھری جو تم نے ابھی
سینہ کو چھونے سے لی، سب یہ سمو لے نم کی بھوک
جسم کے ٹوٹنے، اک نشہ میں گھل جانے کا رس
رنگ میں، نغموں میں اور لمس میں ڈھلنے کی ہوس
سال، صدیاں یہ قرن، ماہ، یہ لمحے، یہ نفس
کیف، بہجت، خوشی، تسکین، مسرت سب کچھ
سب یہ اس واسطے ہے، درد ہے ساتھی ہر وقت
درد پیمانہ ہے ہر چیز کا اس دنیا میں
زیست اک واہمہ ہے ذات کے ہونے کا گماں
درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جس کا نشاں
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
ایک سناٹا ہے احساس کی ادراک کی موت
درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جان کہیں
درد کی حد سے پرے کوئ گیا بھی تو نہیں

اختر الایمان

No comments:

Post a Comment