حاصل فردوس تو ہو جائے ویرانہ ابھی
مائلِ گِریہ نہیں ہے تِرا دیوانہ ابھی
میں بدل تو دوں زمانے کا یہ فرسودہ نظام
مجھ تک آیا ہی نہیں اے دوست! پیمانہ ابھی
آگ میں جل کر وصالِ دوست ہوتا ہے نصیب
عشق کا مرکز کہاں اور دشت پیمائی کہاں
اپنی منزل سے پیچھے ہے دیوانہ ابھی
لب پہ آئی بات کہہ تو دوں، مگر سمجھے گا کون
آج عالم ہے سخن فہمی سے بے گانہ ابھی
آج تشنہ رہ نہ جائے بسملِؔ صہبا پرست
رات باقی ہے ابھی رقصاں ہے پیمانہ ابھی
بسمل دہلوی
No comments:
Post a Comment