شبابِ نَودمیدہ پر گدا ہونے کا وقت آیا
خدا کے نام سے ناآشنا ہونے کا وقت آیا
تِری زلفوں کے سایہ سے جدا ہونے کا وقت آیا
پھر اپنے بخت پر ماتم سرا ہونے کا وقت آیا
نویدِ وصل دینا مجھے پلکوں کے سایہ میں
قدم کچھ اکھڑے اکھڑے سے نظر کچھ بہکی بہکی سی
شباب آیا یہ محشر بپا ہونے کا وقت آیا
مِرے پہلو میں وہ انگڑائی لے کر کسمسا اٹھے
سراپا دل، سراسر مدعا ہونے کا وقت آیا
مسیحا سر جھکا کر اٹھ گیا بسملؔ کی بالیں سے
خدا حافظ، کہ اب محوِ دعا ہونے کا وقت آیا
بسمل دہلوی
No comments:
Post a Comment