Wednesday 23 November 2016

ساقی رخ حیات سے پردہ اٹھا دیا

ساقی! رخِ حیات سے پردہ اٹھا دیا
جامِ سفال میں یہ مجھے کیا پلا دیا
بسملؔ ہی تھا جو وقتِ اجل مسکرا دیا
دنیا کو اس کی موت نے جینا سکھا دیا
ہم نے نہیں تو کس نے نظر کو زبان دی
حالِ زبوں کہا نہ گیا، اور سنا دیا
وہ خود شراب لے کے بڑھیں خود کہیں کہ پی
بے صبر! تُو نے کس لیے ساغر بڑھا دیا
ساقی تِری ادا کی قسم، چُوک ہو گئی
دیکھا جو التفات تو ساغر بڑھا دیا
ہم سے کسی کے عشق میں یہ تو نہیں ہوا
ہر آستاں پہ سجدہ کیا، سر جھکا دیا
بسملؔ کی موت کا جو کوئی لے گیا پیام
منہ سے تو کچھ وہ کہہ نہ سکے سر جھکا دیا

بسمل دہلوی

No comments:

Post a Comment