اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا
شانِ کرم تھی یہ بھی اگر وہ جدا ہوا
کیا محنت طلب میں نہ حاصل مزا ہوا
میں اور کوئے عشق مرے اور یہ نصیب
پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے
کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا
شایان درگزر ہے اگر اضطرار میں
جرمِ دراز دستئ ذوقِ دعا ہوا
کیا کیا نہ اس نے پورے کئے مدعائے دل
لیکن پسند اسے دلِ بے مدعا ہوا
اسکا پتہ کسی سے نہ پوچھو بڑھے چلو
فتنہ کسی گلی میں تو ہو گا اٹھا ہوا
گلرویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ، کبھی کربلا ہوا
پیچیدہ تھی جو سر میں ہوائے رضائے دوست
آسیؔ مرید سلسلۂ مرتضیٰ ہوا
آسی غازی پوری
No comments:
Post a Comment