Saturday 19 November 2016

ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں

ترے کوچے کا رہ نما چاہتا ہوں
مگر غیر کا نقشِ پا چاہتا ہوں
جہاں تک ہو تجھ سے جفا چاہتا ہوں
کہ میں امتحانِ وفا چاہتا ہوں
خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں
مرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں
کہاں رنگِ وحدت کہاں ذوقِ وصلت
میں اپنے کو تجھ سے جدا چاہتا ہوں
برابر رہی حدِ یار و محبت
کسی کو میں بے انتہا چاہتا ہوں
کہاں ہے تری برق جوش تجلی
کہ میں ساز و برگِ فنا چاہتا ہوں
وہ جب کھو چکے مجھ کو ہستی سے اپنی
تو کہتے ہیں اب میں ملا چاہتا ہوں
جنوں محبت میں پندِ عدو کیا
بھلا میں کسی کا برا چاہتا ہوں
طبیعت کی مشکل پسندی تو دیکھو
حسینوں سے ترکِ وفا چاہتا ہوں
جو دل میں نے چاہا تو کیا خاک چاہا
کہ دل بھی تو بے مدعا چاہتا ہوں
یہ حسرت کی لذت یہ ذوقِ تمنا
شبِ وصل ان سے حیا چاہتا ہوں
سوا اسکے میں کیا کہوں تم سے آسیؔ
کہ درویش ہو تم دعا چاہتا ہوں

آسی غازی پوری

No comments:

Post a Comment