Sunday 20 November 2016

گو کہ ہر دم رہا ہے آنکھوں میں

گو کہ ہر دم رہا ہے آنکھوں میں
پھر بھی کچھ کم رہا ہے آنکھوں میں
شہرِ لندن میں عمر بیتی، مگر
عکسِ جہلم رہا ہے آنکھوں میں
دل کا محرم تو بس وہی اک تھا
وہ جو کم کم رہا ہے آنکھوں میں
خواب ٹکتے بھی وصل کے کیسے
ہجر کا رَم رہا ہے آنکھوں میں
کوئی تجھ سا کہیں نہیں پایا
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
بعد تیرے نہ ماہِ عید آیا
بس محرم رہا ہے آنکھوں میں
کیسے اس کو برا بھلا کہتے
جو مکرم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر ذکرِ یار چلتا رہا
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
کون اس کو یہ جا کے بتلائے
اس کا ہی غم رہا ہے آنکھوں میں
آنکھ جس سے چرائے پھرتے تھے
نقش وہ جم رہا ہے آنکھوں میں
زینؔ پھر بھی بھٹک گئے کیسے
رستہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں

اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment