گو کہ ہر دم رہا ہے آنکھوں میں
پھر بھی کچھ کم رہا ہے آنکھوں میں
شہرِ لندن میں عمر بیتی، مگر
عکسِ جہلم رہا ہے آنکھوں میں
دل کا محرم تو بس وہی اک تھا
خواب ٹکتے بھی وصل کے کیسے
ہجر کا رَم رہا ہے آنکھوں میں
کوئی تجھ سا کہیں نہیں پایا
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
بعد تیرے نہ ماہِ عید آیا
بس محرم رہا ہے آنکھوں میں
کیسے اس کو برا بھلا کہتے
جو مکرم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر ذکرِ یار چلتا رہا
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
کون اس کو یہ جا کے بتلائے
اس کا ہی غم رہا ہے آنکھوں میں
آنکھ جس سے چرائے پھرتے تھے
نقش وہ جم رہا ہے آنکھوں میں
زینؔ پھر بھی بھٹک گئے کیسے
رستہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment