Sunday 20 November 2016

سر سے اونچا نہ رکھوں کیوں بھلا دستار کو میں

سر سے اونچا نہ رکھوں کیوں بھلا دستار کو میں
داغ لگنے نہیں دیتا کبھی کردار کو میں
خود اندھیروں کی مسافت کو مقدر کر کے
روشنی بھیک میں دے آیا شبِ تار کو میں
ہو کے مایوس نہ گر جاؤں کسی روز کہیں
ڈھونڈتا پھرتا کسی دیدۂ بیدار کو میں
اپنے ہونے کا سبب پوچھ رہا ہوں خود سے
شب کی دہلیز پہ تھامے ہوئے دیوار کو میں
تو جو چاہے تو کروں تیرے حوالے دل کو
ورنہ پھر خاک کروں تیرے گرفتار کو میں
چارہ گر تُو ہی بتا، کچھ تو بتا چارہ گر
کیسے سینے میں سنبھالوں دلِ افگار کو میں
آنکھ پرنم بھی نہ ہو، درد بھی سارے جھیلوں
کب تلک زیؔن نبھاؤں اسی کردار کو میں

اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment