سر سے اونچا نہ رکھوں کیوں بھلا دستار کو میں
داغ لگنے نہیں دیتا کبھی کردار کو میں
خود اندھیروں کی مسافت کو مقدر کر کے
روشنی بھیک میں دے آیا شبِ تار کو میں
ہو کے مایوس نہ گر جاؤں کسی روز کہیں
اپنے ہونے کا سبب پوچھ رہا ہوں خود سے
شب کی دہلیز پہ تھامے ہوئے دیوار کو میں
تو جو چاہے تو کروں تیرے حوالے دل کو
ورنہ پھر خاک کروں تیرے گرفتار کو میں
چارہ گر تُو ہی بتا، کچھ تو بتا چارہ گر
کیسے سینے میں سنبھالوں دلِ افگار کو میں
آنکھ پرنم بھی نہ ہو، درد بھی سارے جھیلوں
کب تلک زیؔن نبھاؤں اسی کردار کو میں
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment