Wednesday 16 November 2016

در پر ترے قیمت پہ ہوں میں لایا ہوا شخص

در پر تِرے قیمت پہ ہوں میں لایا ہُوا شخص
یا مالِ غنیمت میں کوئی آیا ہوا شخص
تہذیبِ غلامی کے اداروں میں ملا ہے
ہر شخص کو اک دوسرا پہنایا ہوا شخص
ہر سر ہے تہِ سایۂ افلاک گراں سر
ہر شخص ہے اک سائے میں اک سایہ ہوا شخص
چھوٹے سے سراپا میں جو سمٹا تھا وہی میں
اب کتنے زمانوں میں ہوں پھیلایا ہوا شخص
لوٹا دے مجھے مجھ کو کہ شاید میں وہی ہوں
خود کو تِری دہلیز پہ بھول آیا ہوا شخص
جو جاں تھا مِری چھن گیا وہ مایۂ جاں بھی
میں کب سے ہوں اک بے سروسرمایہ ہوا شخص
جھگڑیں بھی تو اب قیس کہاں آئے گا رَہ پر
وہ عشق کا گمراہ، وہ بہکایا ہوا شخص
اب حکم ہے، آگے کی طرف آنکھ نہ اٹھے
ساحر نہ بنا دے تمہیں پتھرایا ہوا شخص
میں آپ تِرا سامنا کرتا نہیں یا رب
میں ہوں تِری تخلیق پہ شرمایا ہوا شخص
شاید مِرے اشعار پڑھے جائیں مِرے بعد
میں اپنے زمانے میں نہیں آیا ہوا شخص
کوثرؔ! نئے افکار لیے سامنے آؤں
نکلوں نہ میں اشعار میں دہرایا ہوا شخص
اقبالؔ! سے درویشِ خدا سے ملے ہم بھی
کیا جوہرِ معنی سے تھا پرمایہ ہوا شخص

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment