طولِ غم سے مختصر غم کی کہانی ہو گئی
جب بھری اک آہ دل کی نوحہ خوانی ہو گئی
ختم دل چسپی تِری اے دار فانی ہو گئی
ہم بھی زندہ تھے کب وہ زندگانی ہو گئی
ہر قدم پر ایک نالہ،۔ ہر قدم پر ایک آہ
ہجر میں آنکھوں سے جاری ہے برابر سیلِ اشک
بند دو کوزوں میں دریا کی روانی ہو گئی
مۓ کو دنیا آتشِ سیال کہتی ہے نظرؔ
لیکن اپنے جام میں آتے ہی پانی ہو گئی
منشی نوبت رائے
(منشی نظر لکھنوی)
No comments:
Post a Comment