Tuesday, 22 November 2016

کب سوچا تھا ایسا ہو گا

کب سوچا تھا ایسا ہو گا
اجلا دَھن بھی کالا ہو گا
کل تک جس پر ناز تھا سب کو
آج وہ وہ کھوٹا سِکہ ہو گا
چائے پییں گے شکر کی
جیب میں جبکہ پیسہ ہو گا
کل تک جو قد آور تھا وہ
آج نہایت بونا ہو گا
بھوکے پیٹ جگا کرتے تھے
لیکن اب تو سونا ہو گا
دل میں ہلچل یوں ہی نہیں ہے
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
جو ہم پر ہنستے تھے آخر
انہیں خمارؔ اب رونا ہو گا

خمار دہلوی

No comments:

Post a Comment