Tuesday 22 November 2016

جو حاکم ہیں وہی اشرار دیکھوں

جو حاکم ہیں وہی اشرار دیکھوں
ستم ہوتے سرِ بازار دیکھوں
امیروں کے اثاثوں پر اثاثے 
غریبوں کو بہت لاچار دیکھوں
کروں امید منزل کی میں کیسے
بھٹکتا قافلہ سالار دیکھوں
مِری تنہائی یہ کہتی ہے مجھ سے 
قریں اپنے کوئی غمخوار دیکھوں
یہ دل چاہے پکڑ لوں اس کا دامن
کھڑا دل پر میں پہرے دار دیکھوں
مصیبت ختم کیوں ہوتی نہیں یہ
اذیت کو میں کتنی بار دیکھوں
ہوا جاتا ہے سارا جسم لرزاں
میں آخر کون سا آزار دیکھوں
ہر اک کی زندگانی سوانگ جیسی
نبھاتے سب کو میں کردار دیکھوں
ترقی کون سی ارشادؔ ہے یہ
کہ جس میں ہر جگہ نادار دیکھوں

ارشاد دہلوی

No comments:

Post a Comment