جو حاکم ہیں وہی اشرار دیکھوں
ستم ہوتے سرِ بازار دیکھوں
امیروں کے اثاثوں پر اثاثے
غریبوں کو بہت لاچار دیکھوں
کروں امید منزل کی میں کیسے
مِری تنہائی یہ کہتی ہے مجھ سے
قریں اپنے کوئی غمخوار دیکھوں
یہ دل چاہے پکڑ لوں اس کا دامن
کھڑا دل پر میں پہرے دار دیکھوں
مصیبت ختم کیوں ہوتی نہیں یہ
اذیت کو میں کتنی بار دیکھوں
ہوا جاتا ہے سارا جسم لرزاں
میں آخر کون سا آزار دیکھوں
ہر اک کی زندگانی سوانگ جیسی
نبھاتے سب کو میں کردار دیکھوں
ترقی کون سی ارشادؔ ہے یہ
کہ جس میں ہر جگہ نادار دیکھوں
ارشاد دہلوی
No comments:
Post a Comment