کسی کے دل کو اگر تابعدار کرنا ہے
ضروری لہجہ بھی نرم اختیار کرنا ہے
کسی یتیم کو شفقت سے دیکھ لینا بھی
نگاہ و دل کو عبادت گزار کرنا ہے
سنبھالو بادباں، پتوار، کشتیاں، تم ہی
لہو سے سینچ کے گلشن کے کیاری کیاری کو
خزاں کے دَور کو فصلِ بہار کرنا ہے
وہاں پہ کیسا ہے ماحول خط میں لکھ دینا
تمہارے شہر میں کچھ کاروبار کرنا ہے
وفا تو ہو گا نہیں یہ بھی وصل کا وعدہ
“مجھے تو خیر تِرا انتظار کرنا ہے”
خلاصہ یہ کہ مِری آنکھوں کے مقدر میں
تمام رات ستارے شمار کرنا ہے
تِری نظر میں اگر جرم ہے صداقت ہی
تو مجھ کو جرم یہی بار بار کرنا ہے
خمارؔ کر کے محبت کسی سے کیا حاصل
دِوارِ دل کو فقط داغدار کرنا ہے
خمار دہلوی
No comments:
Post a Comment