رک گیا اک پری سے جی ہی تو ہے
نہ نبھی ہم سے دوستی ہی تو ہے
نہ رہا ہوش، بے خودی ہی تو ہے
ساقیا! شغل مے کشی ہی تو ہے
للہ الحمد کیا نمود ہوئی
راہ پر آپ کا اجارہ کیا؟
ہم بھی آ نکلیں گے، گلی ہی تو ہے
دل ہمارا اداس ہے بلبل
نہیں لگتا چمن میں، جی ہی تو ہے
نا شگفتہ رہا یہ غنچۂ دل
نہ کھلی اے صبا! کلی ہی تو ہے
ضبط آخر نہ ہو سکا اے رندؔ
ہنس پڑا یار، گدگدی ہی تو ہے
رند لکھنوی
No comments:
Post a Comment