توبہ کا پاس رندِ مے آشام ہو چکا
بس ہو چکا تقدسِ اسلام ہو چکا
شمعِ حرم تھا گاہ، گہے دَیر کا چراغ
میں زیبِ کفر و رونقِ اسلام ہو چکا
دیں دار برہمن کہے، کافر بتائے شیخ
اکثر مشاعرے پہ ہوا بزمِ غم کا شک
کیا کیا مِرے کلام پہ کہرام ہو چکا
جانبر ہوا نہ جس کو لگا روگ عشق کا
ہم کو مرض یہی ہے تو آرام ہو چکا
کعبے کو جاتے جاتے پھرے سوئے دَیر رندؔ
لو حج کر آئے آپ، اور احرام ہو چکا
قران اٹھاتے ہیں طمعِ زر کے واسطے
دیں دار اگر یہی ہیں تو اسلام ہو چکا
رند لکھنوی
No comments:
Post a Comment