شوقِ الفت کا زمانہ تمہیں اب یاد نہیں
بام پر روز کا آنا تمہیں اب یاد نہیں
وہ تبسم وہ ادائیں وہ اشارے مجھ کو
تیر نظروں کے چلانا تمہیں اب یاد نہیں
دیکھنا شوق میں اور خود ہی حیا کے باعث
مجھ سے ملنے کیلئے گھر سے بہانہ کر کے
میرے گھر تک چلے آنا تمہیں اب یاد نہیں
اتفاقاً کبھی ملتے تھے چمن میں ہم تم
خوب پھر ہنسنا ہنسانا تمہیں اب یاد نہیں
سر مِرے شانے پہ رکھ کر وہ تمہارا رونا
اور مِرا سر کو اٹھانا تمہیں اب یاد نہیں
روٹھ جانا کبھی، خاطر میں نہ لانا مجھ کو
اور پھر خود ہی منانا تمہیں اب یاد نہیں
وہ مِرے ساتھ شرارت پہ شرارت کرنا
مجھ کو یوں طیش دلانا تمہیں اب یاد نہیں
شبِ تنہائی میں جب نیند نہ آتی تم کو
فون پر فون لگانا تمہیں اب یاد نہیں
مِرے شعروں کی پزیرائی تمہارے لب پر
اورخود مجھ کو سنانا تمہیں اب یاد نہیں
آج تک بھول نہ پایا تمہیں ارشادؔ، مگر
اپنی الفت کا فسانہ تمہیں اب یاد نہیں
ارشاد دہلوی
No comments:
Post a Comment