Saturday, 1 May 2021

محبتوں میں خسارے مرے نہیں ہوئے تھے

 محبتوں میں خسارے، مِرے نہیں ہوئے تھے

تِرے بغیر گزارے مرے نہیں ہوئے تھے

اُتر رہا تھا بدن پر کوئی صحیفۂ لمس

پر ان لبوں کے کنارے مرے نہیں ہوئے تھے

میں برفزارِ تمنا میں جی رہی تھی کہیں

سو دل میں اُڑتے شرارے مرے نہیں ہوئے تھے

دمک رہا تھا بلاوہ فلک کی آنکھوں میں

مگر زمیں کے اشارے مرے نہیں ہوئے تھے

ابھی وہ لب تھے گریزاں، وہ چشم تھی خاموش

وہ چاند اور وہ تارے مرے نہیں ہوئے تھے

ابھی کھُلی نہ تھی دل پر یہ بادباں صفتی

صبا سے بازو تمہارے مرے نہیں ہوئے تھے

مرا ہوا تھا فقط شاخ گل پہ لرزاں چاند

چراغ اور ستارے مرے نہیں ہوئے تھے

شعاعِ سرد نگاہی تھی بس تعاقب میں

بنفشی درد کے دھارے مرے نہیں ہوئے تھے


صائمہ علی زیدی

No comments:

Post a Comment