جہاں کو چھوڑ دیا تھا جہاں نے یاد کِیا
بچھڑ گئے تو بہت کارواں نے یاد کیا
ملا نہیں اسے شاید کوئی ستم کے لیے
زہے نصیب مجھے آسماں نے یاد کیا
وہ ایک دل جو کڑی دھوپ میں جھُلستا تھا
اسے بھی سایۂ زُلف بُتاں نے یاد کیا
پناہ مل نہ سکی ان کو تیرے دامن میں
وہ اشک جن کو مہ و کہکشاں نے یاد کیا
خیال ہم کو بھی کچھ آشیاں کا تھا لیکن
قفس میں ہم کو بہت آشیاں نے یاد کیا
ہمارے بعد بہائے کسی نے کب آنسو
ہم اہلِ درد کو ابرِ رواں نے یاد کیا
غم زمانہ سے فرصت نہیں مگر پھر بھی
مجید چل تجھے پیرِ مغاں نے یاد کیا
مجید لاہوری
No comments:
Post a Comment