جب تِرا آسرا نہیں مِلتا
کوئی بھی راستا نہیں ملتا
اپنا اپنا نصیب ہے پیارے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں ملتا
تُو نے ڈُھونڈا نہیں تہِ دل سے
ورنہ کس جا خدا نہیں ملتا؟
لوگ مِلتے ہیں پھر بِچھڑتے ہیں
کوئی درد آشنا نہیں ملتا
ساری دُنیا کی ہے خبر مجھ کو
صرف اپنا پتا نہیں ملتا
حسرتیں داغ و درد و رنج و الم
دل کے دامن میں کیا نہیں ملتا
بے سہارا بھی دیکھ لو جِینا
ہر جگہ آسرا نہیں ملتا
چہرہ چہرہ اُداس لگتا ہے
جب تِرا رُخ کِھلا نہیں ملتا
برق وہ مہربان ہو جس پر
اُس کو دُنیا میں کیا نہیں ملتا
برق پونچھوی
(شِو رتن لال)
No comments:
Post a Comment