امیرِ شہر کو اس کا ملال کتنا ہے
غریب آج بھی آسودہ حال کتنا ہے
یہ بات غور طلب ہے تو غور بھی کرلے
خوشی کے رنگ میں حزن و ملال کتنا ہے
یہ فیصلہ تو اراکینِ بزمِ عشق کریں
مرے جمال میں اس کا کمال کتنا ہے
وہ ہم خیال مرا ہے سنا تو ہے لیکن
سوال یہ ہے کہ وہ ہم خیال کتنا ہے
ہمیں خبر ہی نہیں اپنے دل کی سچ پوچھو
ہے پائمال تو یہ پائمال کتنا ہے
گزر رہا ہے ہوا میں گزشتہ لمحوں کے
گزشتہ برسوں سے اچھا یہ سال کتنا ہے
کسے بتائیں کہ کیا کچھ گنوادیا رضیہ
جو ہے ملال تو اب یہ ملال کتنا ہے
رضیہ سبحان
No comments:
Post a Comment