پیروں کے آبلوں کو یوں دھوکے دئیے گئے
منزل کی ہر نوید پہ رستے دئیے گئے
بھاؤ ہر ایک جنس کا اچھا تھا شہر میں
انسان پھر بھی مٹی سے سستے دئیے گئے
راہوں کے سب چراغ جلانے سے پیش تر
میرے جگر کے خون سے بھر کے دئیے گئے
ممکن نہیں تھا جن کی مسافت سے لوٹنا
ان منزلوں کے مجھ کو نوشتے دئیے گئے
ہر اک سفیر خیر کے مثبت سوال پر
سارے جواب نام خدا شر سے دئیے گئے
کچھ دشت کا سفر بھی مقدر بنا رہا
کچھ نین تیری دید کے ترسے دئیے گئے
الفت کی سر زمین تک پہنچا نہ بدگماں
سرکش کے ہاتھ میں سبھی نقشے دئیے گئے
تابش مقام شکر کہ اس مشت خاک کو
کار جہاں میں سانس کے تحفے دئیے گئے
شہزاد تابش
No comments:
Post a Comment