اس نے چھوڑا ہے کچھ ایسے کہ کمی رہتی ہے
اس لیے روز یہ آنکھوں میں نمی رہتی ہے
دھوپ کی ساری تمازت کا اثر کوئی نہیں
دل کے موسم میں فقط برف جمی رہتی ہے
منزلوں پہ ہے نئی راہ، نیا اذنِ سفر
ہر کسی سانس پہ ہجرت کی ٹھنی رہتی ہے
روز کھا لیتا ہوں لوگوں سے نیا کوئی فریب
روز لوگوں سے ہی اُمید بنی رہتی ہے
دھوپ میں دیتی ہے سایہ مجھے ممتا کی دعا
ایک چادر سی مِرے سر پہ تنی رہتی ہے
عقیل شاہ
No comments:
Post a Comment