Saturday, 1 May 2021

اس نے چھوڑا ہے کچھ ایسے کہ کمی رہتی ہے

 اس نے چھوڑا ہے کچھ ایسے کہ کمی رہتی ہے

اس لیے روز یہ آنکھوں میں نمی رہتی ہے

دھوپ کی ساری تمازت کا اثر کوئی نہیں

دل کے موسم میں فقط برف جمی رہتی ہے

منزلوں پہ ہے نئی راہ، نیا اذنِ سفر

ہر کسی سانس پہ ہجرت کی ٹھنی رہتی ہے

روز کھا لیتا ہوں لوگوں سے نیا کوئی فریب

روز لوگوں سے ہی اُمید بنی رہتی ہے

دھوپ میں دیتی ہے سایہ مجھے ممتا کی دعا

ایک چادر سی مِرے سر پہ تنی رہتی ہے


عقیل شاہ

No comments:

Post a Comment