آنکھ میں جتنے خواب بسے تھے ٹوٹ کے چکنا چور ہوئے
جو یہ منظر دیکھ رہے تھے ڈر کر فوراً دور ہوئے
رات عجب اک خوف بپا تھا ہوش کی خالی گلیوں میں
باری باری بہہ جانے پر سب آنسو مجبور ہوئے
میں نے اپنی پیشانی پہ سُرمے سے اک اسم لکھا
اور پلٹ کر جب دیکھا تو سارے پربت طُورہوئے
ایک کہانی یہ بھی تھی کہ ہم نے گھُٹنے ٹیک دئیے
ایک فسانہ یہ بھی تھا کہ ہم کتنے مغرور ہوئے
تجھ سے پہلے میں نے ساری اچھی غزلیں لکھی تھیں
لیکن تجھ کو سامنے پا کرسب مصرعے کافور ہوئے
میری کہانی لوگوں تک تیری آنکھوں نے پہنچائی
میرے لیے جو تُو نے دیکھے وہ سپنے مشہور ہوئے
میں نے کتنی بار نہ جانے کل خود پر انجیل پڑھی
دل پر دم کا پانی چھڑکا تب اچھے ناسور ہوئے
انجیل صحیفہ
No comments:
Post a Comment