چلے ہیں ساتھ ہم انجان ہو کر
رہے اپنے ہی گھر مہمان ہو کر
ملی تھی راستے میں زندگی بھی
مجھے تکتی رہی حیران ہو کر
مجھے سمجھا نہیں شاید کسی نے
بہت مشکل میں ہوں آسان ہو کر
جہاں ہے وہ وہاں پر ہم نہیں ہیں
پڑے ہیں گھر میں ہم سامان ہو کر
کوئی دھڑکا نہیں لٹنے کا مجھ کو
میں خوش ہوں بے سر و سامان ہو کر
محبت جنگ تھی مہنگی پڑی ہے
ہوئی تقسیم میں تاوان ہو کر
بہت مانوس تھی میں جگنوؤں سے
انہیں تکتی ہوں اب حیران ہو کر
مِری پہچان مجھ سے چھن گئی ہے
جدا ہے وہ مِری پہچان ہو کر
میں سانسوں کے بھروسے پر کھڑی تھی
مجھے جینا تھا اس کی جان ہو کر
فرح میں اپنی پوری داستاں تھی
مگر اب رہ گئی عنوان ہو کر
فرح شاہد
No comments:
Post a Comment