Saturday, 1 May 2021

چلے ہیں ساتھ ہم انجان ہو کر

 چلے ہیں ساتھ ہم انجان ہو کر

رہے اپنے ہی گھر مہمان ہو کر

ملی تھی راستے میں زندگی بھی

مجھے تکتی رہی حیران ہو کر

مجھے سمجھا نہیں شاید کسی نے

بہت مشکل میں ہوں آسان ہو کر

جہاں ہے وہ وہاں پر ہم نہیں ہیں

پڑے ہیں گھر میں ہم سامان ہو کر

کوئی دھڑکا نہیں لٹنے کا مجھ کو

میں خوش ہوں بے سر و سامان ہو کر

محبت جنگ تھی مہنگی پڑی ہے

ہوئی تقسیم میں تاوان ہو کر

بہت مانوس تھی میں جگنوؤں سے

انہیں تکتی ہوں اب حیران ہو کر

مِری پہچان مجھ سے چھن گئی ہے

جدا ہے وہ مِری پہچان ہو کر

میں سانسوں کے بھروسے پر کھڑی تھی

مجھے جینا تھا اس کی جان ہو کر

فرح میں اپنی پوری داستاں تھی

مگر اب رہ گئی عنوان ہو کر


فرح شاہد

No comments:

Post a Comment