Monday, 1 August 2022

جان کی باری ہے اب دل کا زیاں ایسا نہ تھا

جان کی باری ہے اب دل کا زیاں ایسا نہ تھا

خیر جو کچھ بھی ہوا ہم کو گماں ایسا نہ تھا

سخت جیسی اب ہے قدموں میں زمیں ایسی نہ تھی

سر پہ جیسا اب ہے بھاری آسماں ایسا نہ تھا

اک زمانہ ہو گیا اس راہ سے گزرے ہوئے

یہ گلی ایسی نہیں تھی یہ مکاں ایسا نہ تھا

تھا خس و خاشاک کی مانند اپنا ہی وجود

صرف ہم پر ہی گری ہوں بجلیاں ایسا نہ تھا

اس کنارے کا تصور میں بھی آنا ہے محال

تھا تو پہلے سے سمندر بے کراں ایسا نہ تھا

اپنی ناکامی تو پہلے سے مقدر تھی شکیل

ہم پہ کچھ مشکل رہا ہو امتحاں ایسا نہ تھا


شکیل گوالیاری

No comments:

Post a Comment