جان کی باری ہے اب دل کا زیاں ایسا نہ تھا
خیر جو کچھ بھی ہوا ہم کو گماں ایسا نہ تھا
سخت جیسی اب ہے قدموں میں زمیں ایسی نہ تھی
سر پہ جیسا اب ہے بھاری آسماں ایسا نہ تھا
اک زمانہ ہو گیا اس راہ سے گزرے ہوئے
یہ گلی ایسی نہیں تھی یہ مکاں ایسا نہ تھا
تھا خس و خاشاک کی مانند اپنا ہی وجود
صرف ہم پر ہی گری ہوں بجلیاں ایسا نہ تھا
اس کنارے کا تصور میں بھی آنا ہے محال
تھا تو پہلے سے سمندر بے کراں ایسا نہ تھا
اپنی ناکامی تو پہلے سے مقدر تھی شکیل
ہم پہ کچھ مشکل رہا ہو امتحاں ایسا نہ تھا
شکیل گوالیاری
No comments:
Post a Comment