عارفانہ کلام نعتیہ کلام
انؐ سے عقیدت کا یہ تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان کے نام پہ جینا مرنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
وہ کہتا ہے صرف بشر تھے، میں کہتا ہوں نور بھی ہیں
اس کا گماں اور میرا دعویٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میں تو رحمت بھیجتا ہوں، تم ان پر درود سلام پڑھو
قرآں میں یہ حکم خدا کا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان کی خاطر دنیا بنی ہے، بعد خدا ہے ان کی ہستی
اہلِ سنت کا یہ عقیدہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان کی شفارش اور شفاعت کام آتی ہے کام آئے گی
ان سے ربط اور ان کا وسیلہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ان سے محبت کرتا ہوں
میرے دل میں عشق کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان کے نور سے کون ومکاں کو خالق نے تخلیق کیا
ان کی ضیا سے مہر کا جلوہ کل بھی تھا اور آج بھی تھا
مہر وجدانی
No comments:
Post a Comment