مجھے وداع کر
مجھے وِداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات
لوگ جو ہزار سال سے
مِرے کلام کو ترس گئے
مجھے وداع کر
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چکا
میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا
مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں
مجھے وداع کر
بہت ہی دیرِ
دیر جیسی دیر ہو گئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے، میں خداؤں کی طرحِ
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا
مجھے وداع کر، اے میری ذات
تُو اپنے روزنوں کے پاس آ کے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوںِ
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اتر گئے
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خوابِ
خوابِ قہوہ رنگ میںِ
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں
مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میںِ
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار ان پہ ڈالتی رہی
یہ بار ان کا ہول ہے
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و در لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن
مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرحِ
مجھے اے میرے ذات
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار
اِس کی ہاو ہُوِ
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسۂ گرسنگی لیے)
کہ ان کے آب و نان کی جھلک ہے کون
میں ان کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میں ان کے سیم و زر سےِ
ان کے جسم و جاں سےِ
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
ان کے آستاں سے میں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیںِ
مجھے وداع کر
کہ اپنے آپ میں
میں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
میں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چکا
کہ حوصلہ نہیںِ
ن م راشد
انا للہ و انا الیہ راجعون، ن م راشد کے کے کلام مجھے وداع کر کو گا کر امر بنانے والی نیرہ نور جی بھی آج اس فانی دنیا کو وداع کہہ کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئیں، اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان و ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
No comments:
Post a Comment