عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر سیدنا امام حسنؑ
لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا نام
لکھا ہے پنجتنؑ کی حسِیں انجمن کا نام
سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا نام
آیا میری زباں پہ امامِ حسنؑ کا نام
جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال دی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال دی
سر چشمۂ نجاتِ بشر حسنؑ کردگار
انسانیت کے باغ میں پیغمبر بہار
حاجت روا حسِیں وہ انا مست بُردبار
وہ امن و عافیت کی حکومت کا تاجدار
تشبیہ دوں کسی سے میری کیا مجال ہے
بس اتنا کہہ رہا ہوں حسنؑ بے مثال ہے
زہراؑ کا چاند اِبنِ علیؑ و مصطَفیٰﷺ کا نُور
جس کی جبِیں سے پُھوٹ رہی ہے شعاعِ طُور
رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا سرور
جس کی ہر اک ادا سے نمایاں نیا شعور
چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ دی
کھولی زباں تو ظلم کی زنجیر توڑ دی
وہ مجتبیٰؑ، وہ عالمِ لوحِ فلک مقام
معراج فکر، سِدرہ نظر، عرشِ احتشام
ایسا سخی ملک بھی کریں جس کا احترام
دشمن سے بھی نہ لیا کبھی جس نے انتقام
جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش دی
اللہ رے، آب و تاب رُخ اِبن بُو ترابؑ
اب تک خراج دے کے گزرتا ہے آفتاب
لوحِ جبیں وہ علم امامت کا ایک باب
رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے حساب
بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تُلے ہوئے
جیسے فلک پر صلح کے پرچم کُھلے ہوئے
کاکُل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک رات
چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات
دیتے ہیں جان جنبش ابرو پہ معجزات
افشاں ہے راز کُن کہ کشادہ حسنؑ کا ہاتھ
ہیں شاخ گُل میں اوس کی بوندیں اڑی ہوئیں
یا زُلفِ مجتبیٰؑ میں ہیں گِرہیں پڑی ہوئیں
آنکھیں ہیں یا چراغ ابد کی فصیل کے
پلکیِں ہیں یا حروف لبِ جبریلؑ کے
عارض ہیں یا کنول مہ و انجم کی جھیل کے
عارض ہیں یا نقوش خیالِ جمیل کے
چہرہ حسنؑ کا ہے کہ شبیہِ رسولؐ ہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دُھول ہے
یہ پھول پھول رنگ طبیعت پہ باغ باغ
کونین پر محیط مزاجِ دل و دماغ
جس کی مئے انا سے پگھلنے لگے ایاغ
مہتابِ حُسنِ بندِ قباء سے ہے داغ داغ
جس کی مدد سے سدا حق کی برتری ہوئی
جس کی قباء کو دیکھ کے دنیا ہری ہوئی
جو دلفشیں گریز کرے نام و ننگ سے
انساں کو تولتا نہ ہو تیر و تفنگ سے
جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ سے
وہ امن آشنا جسے نفرت ہو جنگ سے
صحرا چمن کرے جو حدودِ چمن کے بعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا حسنؑ کے بعد
جس کا سلوکِ خلق نبیﷺ کا سلام لے
حق دے کے جو عدُو سے حقیقی مقام لے
دستِ اجل سے ہنس کے جو رختِ دوام لے
اک جُنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام لے
سلطانئ بہِشت جسے کِردگار دے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار دے
ٹکرائے گا حسنؑ سے کہاں کوئی بے نصب
یہ وجہ ذُوالجلال، وہ ابلیس کا غضب
حیدرؑ کہاں، کہاں کوئی فرزند بِنتِ شب
زہراؑ سے کیا ملے کوئی حَمّالَۃ الْحَطَب٭
بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول ہے
وہ پیکر خطا، تو یہ اِبنِ رسولﷺ ہے
گردِ خزف کُجا، رُخِ دُرِ نجف کُجا
قطرہ کُجا، یہ قُلزم کوثر بکف کُجا
دریوزہ گر کُجا، شہِ عالی شرف کُجا
کنکر کُجا، یہ جوہر حُسنِ صدف کُجا
تحت الثریٰ کو ہمسرِ عرشِ عُلیٰ کہوں
دنیا تیرے ضمیر کی پستی کو کیا کہوں
محسن نقوی
٭حمالۃ الحطب؛ ابولہب کی بیوی کا لقب
No comments:
Post a Comment