لیا ہے خاک میں خود کو ملا، ملا نہیں کچھ
یہ کارِ زیست عبث ہے، یہاں رکھا نہیں کچھ
سُخن وری بھی، فقیری بھی، بادشاہی بھی
سب ایک آگ میں جھونکے گئے، بچا نہیں کچھ
زمیں لرز اٹھے گی ، آسمان گر پڑے گا
ہزار طرح کے اندیشے تھے، ہُوا نہیں کچھ
یہ گِرد بادِ حوادث ہے، کس کو چھوڑتی ہے
یہ تُند سیلِ زمانہ ہے، دیکھتا نہیں کچھ
نہ گنبدوں میں صدا ہے نہ آئینوں میں شبیہ
گئے ہم ایسے کہ اب دُور تک پتہ نہیں کچھ
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں تیرے آستانے پر
جو آستانے کے عاشق ہیں مدعا نہیں کچھ
جو دل میں رہتا ہے، ہاتھوں نے اس کی تصویریں
بدل بدل کے بنائیں مگر بنا نہیں کچھ
تمام عمر خموشی کے بعد، حاصلِ عمر
کہا تو ہم نے کسی نے مگر سُنا نہیں کچھ
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment