ساحل پہ لائی، اور سفینے ڈبو دئیے
یوں زندگی نے ہم کو ہنسایا کہ رو دئیے
اہل چمن نے جشن بہاراں کے نام سے
وہ داستاں سنائی کہ دامن بھگو دئیے
ضبط غم فراق کی مجبوریاں نہ پوچھ
دل میں کسی کا نام لیا، اور رو دئیے
فریاد کی ہے بات مگر اب سنے گا کون
اک ناخدا نے کتنے سفینے ڈبو دئیے
اے وائے سعیٔ ضبط کہ اکثر ترے حضور
ہنسنے کا اہتمام کیا،۔ اور رو دئیے
ان آنسوؤں کا دیکھنے والا کوئی نہ تھا
جن آنسوؤں میں ہم نے تبسم سمو دئیے
راہ جنوں میں کام خرد سے لیا ہی تھا
ضعف طلب نے پاؤں میں کانٹے چبھو دئیے
تجدید عہد عشق ہوئی آج یوں شمیم
نظریں ملیں، سلام کیا، اور رو دئیے
شمیم جے پوری
No comments:
Post a Comment