جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
شبنم مری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے
جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے
آشفتہ سری ہے، مری آشفتہ سری ہے
اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں
سورج کہاں نکلا ہے کہاں صبح ہوئی ہے
ہم کشمکش دیر و حرم سے ہیں بہت دور
انسان کی عظمت پہ نظر اپنی رہی ہے
بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم
ہر گام پہ کھوئی ہوئی اک یاد ملی ہے
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
تم سادہ و معصوم ہو اور ہم ہیں گنہ گار
دنیا کی نگاہوں سے کہیں بات چھپی ہے
ہنسنے پہ نہ مجبور کرو، لوگ ہنسیں گے
حالات کی تفسیر تو چہرے پہ لکھی ہے
دیکھا ہے زمانے کو گلے ہم نے لگا کر
سینہ تری دنیا کا محبت سے تہی ہے
وہ بھول گئے ہم کو، انہیں بھول گئے ہم
اے دوست، مگر دل میں خلش اب بھی وہی ہے
مل جائیں کہیں وہ بھی تو ان کو بھی سنائیں
جالب یہ غزل جن کے لیے ہم نے کہی ہے
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment