Tuesday, 23 August 2022

نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا

 نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا

ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا

نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا

سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا

گھٹا چھاتی، بہار آتی، تمہارا تذکرہ ہوتا

پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا

زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے

نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا

ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے

نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا

مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے

جلا تھا جب، تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا

ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں

کنارے آپ ہوتے، اور سفینہ ڈوبتا ہوتا

ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن

تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا

بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا

ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے، اشارہ کر دیا ہوتا

ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے

تجھے نوشاد کیسی چپ لگی، کچھ تو کہا ہوتا


نوشاد علی

No comments:

Post a Comment