عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مسلکِ عشق کا سلسلہ رہ گیا
راہرو چل دئیے راستہ رہ گیا
کربلا تجھ پہ روندا گیا جسمِ شہؑ
کیوں نہ پھٹ کر کلیجہ تیرا رہ گیا
تیر کے ساتھ ایماں گیا ہاتھ سے
حُرملہ اب تِرے پاس کیا رہ گیا
شہؑ کی خاطر فرس نے نہ پانی پیا
آبِ دریا بھی منہ دیکھتا رہ گیا
صبحِ جنت شہیدوں کو مل بھی گئی
شامیوں کا پَرا دیکھتا رہ گیا
اب عناں گیرِ ناموسِ محبوبِؐ حق
ایک بیمار کا حوصلہ رہ گیا
نوکِ ہر خار شرمندہ ہے آج تک
پائے عابدؑ پہ خونِ جفا رہ گیا
جس پہ زہراؑ کے آنچل نے سایہ کیا
ظالموں! اب وہ سر بے رِدا رہ گیا
نورِ ایماں کا اب ہو گا ضامن یہی
یوں تو ساجد فقط اک دِیا رہ گیا
ساجد امروہوی
مرزا ساجد حسین
No comments:
Post a Comment