جو تِرے پہلو میں گزری زندگی اچھی لگی
غم تِرا اچھا لگا،۔ تیری خوشی اچھی لگی
یاس کے موسم میں اس کی دل لگی اچھی لگی
آنکھ نم ہو کر بھی ہونٹوں پر ہنسی اچھی لگی
دُکھ بھی اس کی راہ میں ہیں سُکھ بھی اس کی راہ میں
موت سے ہر آدمی کو زندگی اچھی لگی
حادثے پر حادثے ہی ہو رہے ہیں کیا خبر
آسماں والے کو میری بے بسی اچھی لگی
ہو گئے گمراہ وہ آ کر تمہارے شہر میں
سب کو اس تہذیبِ نو کی روشنی اچھی لگی
خواب کی وادی میں تنہا پھر رہا ہوں روز و شب
دوستی اچھی نہ مجھ کو رہبری اچھی لگی
جاگتی آنکھوں سے ساحر دیکھتا ہوں دہر کو
گلستاں میں کھلنے والی ہر کلی اچھی لگی
عبداللہ ساحر شیوی
No comments:
Post a Comment