یوں ہی کبھی مچل گئے یوں ہی کبھی بہل گئے
ہم کو کہاں قرار تھا؟ تم سے ملے، سنبھل گئے
دل کی کبھی سنی نہیں اور کبھی تو بے سبب
آنکھ ذرا سی نم ہوئی، اس کی طرف نکل گئے
یوں ہی رہیں گے رات دن یوں ہی زمین و آسماں
تم جو کبھی بدل گئے، ہم جو کبھی بدل گئے
کوئی دریچہ وا ہوا،۔ کوئی نہ آیا بام پر
آج یہ کس گلی سے ہم گاتے ہوئے غزل گئے
اقبال خاور
No comments:
Post a Comment