Wednesday 19 October 2022

یوں ہی کبھی مچل گئے یوں ہی کبھی بہل گئے

 یوں ہی کبھی مچل گئے یوں ہی کبھی بہل گئے

ہم کو کہاں قرار تھا؟ تم سے ملے، سنبھل گئے

دل کی کبھی سنی نہیں اور کبھی تو بے سبب

آنکھ ذرا سی نم ہوئی، اس کی طرف نکل گئے

یوں ہی رہیں گے رات دن یوں ہی زمین و آسماں

تم جو کبھی بدل گئے، ہم جو کبھی بدل گئے

کوئی دریچہ وا ہوا،۔ کوئی نہ آیا بام پر

آج یہ کس گلی سے ہم گاتے ہوئے غزل گئے


اقبال خاور

No comments:

Post a Comment