Wednesday 19 October 2022

خوشی کا ہے تو یہاں غم کا بھی اصول بنے

 خوشی کا ہے تو یہاں غم کا بھی اصول بنے

گرے جو اشک تو کاغذ پہ کوئی پھول بنے

مجھے پتہ ہے اسے دُکھ نہیں جدائی کا

اسے کہو کہ نہ باہر سے یوں ملول بنے

منانا یار کو آسان ہو بھی سکتا ہے

منانے والا اگر اس گلی کی دھول بنے

میں کھینچ کھینچ کے پچھلا حساب لاتا ہوں

میں چاہتا ہوں کہ اس گفتگو میں طول بنے


سلیم عباس

No comments:

Post a Comment