خوشی کا ہے تو یہاں غم کا بھی اصول بنے
گرے جو اشک تو کاغذ پہ کوئی پھول بنے
مجھے پتہ ہے اسے دُکھ نہیں جدائی کا
اسے کہو کہ نہ باہر سے یوں ملول بنے
منانا یار کو آسان ہو بھی سکتا ہے
منانے والا اگر اس گلی کی دھول بنے
میں کھینچ کھینچ کے پچھلا حساب لاتا ہوں
میں چاہتا ہوں کہ اس گفتگو میں طول بنے
سلیم عباس
No comments:
Post a Comment