غمِ حیات کی پہنائیوں سے خوفزدہ
میں عمر بھر رہا ناکامیوں سے خوفزدہ
جہاں بھی دیکھو تعصّب کی چل رہی ہے ہوا
ہمارا شہر ہے بلوائیوں سے خوفزدہ
کبھی کسی کا بُرا ہی نہیں کیا پھر بھی
زمانہ ہے مِری خوش حالیوں سے خوفزدہ
کرم تمہارا کوئی بے غرض نہیں ہوتا
ہے دل تمہاری مہربانیوں سے خوفزدہ
الٰہی تجھ کو خبر ہے کہ یہ تِرا ساحر
ہے کتنا اپنی پریشانیوں سے خوفزدہ
عبداللہ ساحر شیوی
No comments:
Post a Comment