آرزو سلگتی ہے ہو کے مَس ہواؤں سے
آگ سی برستی ہے ساونی گھٹاؤں سے
بے بسیٔ آدم کا غم تو خیر سب کو ہے
کون بھیک مانگے گا رحم کے خداؤں سے
نا مُراد جینا تھا،۔ نا مُراد جیتے ہیں
کیا گِلہ کرے کوئی اپنے آشناؤں سے
گلستاں کہ زخم دلِ، کہکشاں کہ اشکِ غم
جی لرزنے لگتا ہے اب حسیں فضاؤں سے
حادثوں کی بستی میں حسن بھی پشیماں ہے
وہ نظر چُراتے ہیں آج خود جفاؤں سے
اب نہ دل زمینوں کا، اور نہ آسمانوں کا
کر رہا ہے سرگوشی اجنبی خلاؤں سے
انتظار کا عالم کیا بتاؤںِ اے پرواز
چونک چونک اٹھتا ہوں سانس کی صداؤں سے
نصیر پرواز
No comments:
Post a Comment