سفر نے تو مجھے شل کر دیا ہے
معمّا تھا مگر حل کر دیا ہے
وہ آیا نکہتوں کے جُھرمٹوں میں
بہاروں کو مکمل کر دیا ہے
مجھے محفوظ کرنا ذات کو تھا
تِری آنکھوں کا کاجل کر دیا ہے
عنایت کی ہے اس نے، حال پوچھا
بیاں میں نے بھی اجمل کر دیا ہے
ہؤا کچھ بھی نہِیں اس سے بِچھڑ کر
مگر آنکھوں کو جل تھل کر دیا ہے
گیا اس کا مکیں گھر چھوڑ کر جب
سو دل کا در مقفّل کر دیا ہے
غمِ جاناں سے کھینچا ہاتھ کب کا
غمِ دوراں نے پاگل کر دیا ہے
رویّے نے تمہارے کھال کھینچی
مِری چمڑی کو چھاگل کر دیا ہے
رِیاست نے معاشی مسئلے کو
کوئی دردِ مسلسل کر دیا ہے
کڑکتی دُھوپ میں جلتے بدن پر
تِری زُلفوں نے بادل کر دیا ہے
عنایت ہے کسی کی مجھ پہ حسرت
نِرا تھا ٹاٹ، مخمل کر دیا ہے
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment