Friday, 21 October 2022

کھو گئے جانے کہاں پیار لٹانے والے

 کھو گئے جانے کہاں پیار لٹانے والے

یاد آتے ہیں بہت لوگ پرانے والے

اتنی مہنگائی میں بچتا ہی نہیں کچھ صاحب

نوکری ایک ہے، اور چار ہیں کھانے والے

کچھ بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا ہے یہاں

تھے قطاروں میں کھڑے صبح سے پانے والے

اک تسلی کے سوا اور نہ دے پائے تھے کچھ

آج بھی چُبھتے ہیں آنسو مجھے شانے والے

کھوکھلے رسموں رواجوں نے جتایا اکثر

ہاتھیوں کے ہی نہیں دانت دکھانے والے

کیسا انصاف کیا کرتا ہے اوپر والا؟

بھیگتے رہتے ہیں خود چھاؤنی چھانے والے


غزالہ تبسم

No comments:

Post a Comment