Friday 21 October 2022

راگ تھم جائیں گے شہنائی چلی جائے گی

راگ تھم جائیں گے، شہنائی چلی جائے گی

بے سُری گیت میں پھر چھائی چلی جائے گی

میں تِرے ہجر میں یعقوبؑ کی آنکھوں کی طرح

اتنا روؤں گا کہ بینائی چلی جائے گی

میں چلا جاؤں گا لیکن اے مِرے پیرِ مغاں

تیرے مے خانے سے رعنائی چلی جائے گی

ایسے حجرے میں چُھپوں گا تو یہاں سے دُنیا

مجھ سے ملنے کی تمنائی چلی جائے گی

جس گلی سے بھی تُو گُزرے تِری خُوشبوئے سخن

تیرے اطراف میں ہر جائی چلی جائے گی

رنگ لائے گی یہی جہدِ مُسلسل اک دن

دیش سے غیر کی دارائی چلی جائے گی

دیکھ لینا جو ریاضت نہ کرے گا اس کے

شعر سے بات کی گہرائی چلی جائے گی

منظرِ عام پہ آ جائیں اگر غم میرے

پھر تِرے غم کی پذیرائی چلی جائے گی

تم نہیں جانتے اس شخص کو حاشر اس کا

کام نِکلا تو شناسائی چلی جائے گی


سید جواد حاشر

No comments:

Post a Comment