سوکھے ہوئے کچھ پھول بھی گلدان میں رکھنا
ہے حسن کا انجام یہی، دھیان میں رکھنا
پھر شوق سے مجرم مجھے گرداننا، لیکن
انصاف کی مسند کھلے میدان میں رکھنا
ایسا نہ ہو پڑ جائے کہیں میری ضرورت
لازم نہ سہی پر اسے امکان میں رکھنا
حیرت کدۂ زیست سے کترا کے گزرنا
ہر عکس مگر دیدۂ حیران میں رکھنا
اک حکم کہ جس سے ہوئی سالار کو پھانسی
لازم تھا اسے عدل کی میزان میں رکھنا
تعبیر بتادے گا تِرے خواب کی تجھ کو
اک یوسفِ کنعان کو زندان میں رکھنا
یہ کارِ وفا کیش کب آسان ہے اختر
آباد کسی کو دلِ ویران میں رکھنا
اختر عبدالرزاق
No comments:
Post a Comment