کئی دنوں سے مجھے بھی نفی کیا ہوا ہے
تِرے خیال نے اتنا دکھی کیا ہوا ہے
وہ ایک پل تو تجھے یاد بھی نہیں ہو گا
وہ ایک پل جسے ہم نے صدی کیا ہوا ہے
تِری طرح مِرے اندر بھی دھول اڑ رہی ہے
مِرا لباس ذرا استری کیا ہوا ہے
اس آدمی کو تجارت کے فائدے نہ گِنا
وہ آدمی جو تِری نوکری کیا ہوا ہے
ذرا سا وہ نظر انداز کر رہا ہے مجھے
کچھ اپنے آپ کو میں نے بِزی کیا ہوا ہے
ابھی تو سارے فرشتے دکھائی دیتے ہیں
ابھی تو اس نے سبھی کو بری کیا ہوا ہے
میں روز ٹوٹی ہوئی کوئی چیز جوڑتا ہوں
اس آدمی نے مجھے مستری کیا ہوا ہے
شکیل جمالی
No comments:
Post a Comment