Sunday 23 October 2022

تاریک ہیں حالات ذرا دیکھ کے چلنا

تاریک ہیں حالات ذرا دیکھ کے چلنا

ہر آن ہیں خطرات ذرا دیکھ کے چلنا

یہ راہِ محبت ہے میاں کیسی مسرت 

ہر گام ہیں صدمات ذرا دیکھ کے چلنا

اک شہر خطرناک ہے پھر چاروں طرف سے

پڑتے ہیں مضافات ذرا دیکھ کے چلنا

اے عشق! تُو اس دشت میں تنہا تو نہیں ہے

میں بھی ہوں تِرے ساتھ ذرا دیکھ کے چلنا

تقدیس لبادے میں ہے کردار میں تلبیس

دنیا ہے یہ کم ذات ذرا دیکھ کے چلنا

نادان مشینوں کو خدا مان رہے ہیں

معبود ہیں آلات ذرا دیکھ کے چلنا

مجبور ہیں حالات کے مارے ہوئے مزدور

گھر اُن کا ہے فٹ پاتھ ذرا دیکھ کے چلنا

وہ جبرِ مُسلسل ہے کہ ہر آنکھ ہے پُرنم

اشکوں کی ہے برسات ذرا دیکھ کے چلنا

لازم ہے کہ بدلے گا یہ دستور بھی صابر

بدلیں گے یہ دن رات ذرا دیکھ کے چلنا


فاروق صابر

No comments:

Post a Comment