کوشش تو بارہا تھی مِری پر نہ بن سکا
خوابوں کا اک مکاں تو بنا گھر نہ بن سکا
بنتا رہا، بگڑتا رہا، عمر بھر یہ دل
لیکن تمام عمر یہ پتھر نہ بن سکا
مسند کے آگے اتنا جھکایا ہے اپنا سر
بچوں کا میرے دھڑ تو بنا سر نہ بن سکا
میں مبتلا تو رہ گیا تیرے حصار میں
افسوس یہ کہ میں تِرا محور نہ بن سکا
اس کی گلی بلا کی کشادہ گلی تھی سیف
میرے لیے وہاں بھی مگر در نہ بن سکا
سیف عرفان
No comments:
Post a Comment