Sunday 23 October 2022

ترستی ہوں سننے کو تیرا لہجہ نہیں ملتا

ترستی ہوں سننے کو تیرا لہجہ نہیں ملتا

زمانے میں کوئی مجھ کو تیرے جیسا نہیں ملتا 

تیرے تک پہنچنے کی سب یہ تدبیریں ہیں لاحاصل

کبھی ہمت نہیں رہتی، کبھی رستہ نہیں ملتا

بڑی بے چین رہتی ہے نگاہیں اس زمانے کی

مگر دیدار کی خاطر، تیرا چہرہ نہیں ملتا

تصور میں تمہیں ہر پل سدا محسوس کرتی ہوں

حقیقت میں تیری خوشبو کا بھی جھونکا نہیں ملتا

میری خواہش ہے جب چاہوں تمہیں دیکھوں تسلسل سے

دکھا دے جو تیری صورت ایسا شیشہ نہیں ملتا

ذہیں بھی تُو بلا کا ہے، ادائیں بھی قیامت ہیں

کہوں کیوں نہ فخر سے پھر کوئی تجھ سا نہیں ملتا


انعم نقوی

No comments:

Post a Comment