ترستی ہوں سننے کو تیرا لہجہ نہیں ملتا
زمانے میں کوئی مجھ کو تیرے جیسا نہیں ملتا
تیرے تک پہنچنے کی سب یہ تدبیریں ہیں لاحاصل
کبھی ہمت نہیں رہتی، کبھی رستہ نہیں ملتا
بڑی بے چین رہتی ہے نگاہیں اس زمانے کی
مگر دیدار کی خاطر، تیرا چہرہ نہیں ملتا
تصور میں تمہیں ہر پل سدا محسوس کرتی ہوں
حقیقت میں تیری خوشبو کا بھی جھونکا نہیں ملتا
میری خواہش ہے جب چاہوں تمہیں دیکھوں تسلسل سے
دکھا دے جو تیری صورت ایسا شیشہ نہیں ملتا
ذہیں بھی تُو بلا کا ہے، ادائیں بھی قیامت ہیں
کہوں کیوں نہ فخر سے پھر کوئی تجھ سا نہیں ملتا
انعم نقوی
No comments:
Post a Comment